حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
دوست کو پیدل جاتا دیکھ کر اس نے موٹرسائیکل روکی اور اصرار کیا کہ وہ موٹرسائیکل پر سوار ہوجائے۔ اس دوست کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا اور اسے خیال آیا کہ کئی ماہ بعد آج ملاقات ہوئی ہے‘ اچھا ہے‘ سفر اچھا کٹ جائے گا۔ موٹرسائیکل روک کر وہ نیچے اترا اور دوست سے موٹرسائیکل چلانے پر اصرار کیا اس نے کچھ عذر بھی کیا مگر چونکہ موٹرسائیکل نئی تھی اور صرف دو دن پہلے خریدی تھی اس لیے اُس نے اصرار کیا کہ موٹرسائیکل وہی چلائے۔ آگے کی سیٹ پر اُس نے اسے بٹھایا اور خود پیچھے کی سیٹ اختیار کی راستہ بھر ایک دوسرے سے محبت اور دوستی کی باتیں ہوتی رہیں سفر بہت خوشگوار گزر رہا تھا۔ نصیرآباد کے پھاٹک پر پہنچے تو پھاٹک بند تھا۔ موٹرسائیکل نیوٹرل کرکے ابھی انجن بند بھی نہیں کیا تھا کہ وقت آخر آگیا ایک چیل اپنے پنجوں اور چونچ میں ایک سانپ دبائے اڑ رہی تھی اچانک اس کی چونچ سے وہ سانپ چھوٹا‘ سانپ زخمی مگر زندہ تھا‘ چیل کی چونچ سے چھوٹا تو موٹرسائیکل پر سوار پیچھے کی سیٹ پر بیٹھے دوست کی گردن پر گرا اور فوراً اس نے گردن پر ڈنک مارا۔ راجستھان کے خشک علاقے کا سانپ اس قدر زہریلا تھا کہ آدھے منٹ میں موٹرسائیکل چلانے والے دوست نے دیکھا میرا دوست ایک دم داہنی طرف گرا اس نے موٹرسائیکل بند کرکے ایک طرف لگائی اور دوست کو اٹھانے کی کوشش کی تبھی اس نے سانپ کو دیکھا وہ رینگتا ہوا اس کی گردن سے سڑک کی طرف جارہا تھا اور وہ چیل جو اسے دور سے شکار کرکے لائی تھی پھر آئی اور اس سانپ کو اٹھا کر لے گئی۔
دوست نے اپنے دوست کو اٹھا کر سڑک کے ایک طرف لے جانے کی کوشش کی تو وہ تقریباً بے جان ہوچکا تھا گھسیٹ کر کسی طرح راستہ سے ایک طرف لٹایا وہ آخری سانسیں لے رہا تھا‘ سواری کا نظم کیا۔ ایک جیپ میں ڈال کر نصیرآباد شہر میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گیا مگر وہاں جاکر ڈاکٹر نے بتایا کہ اُس کا انتقال ہوچکا ہے‘ زہر کے اثر سے اس کا پورا جسم نیلا پڑگیا تھا‘ بچپن کے ساتھی کی میت کے پاس بیٹھ کر یہ دوست دیر تک سوچتا رہا کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارا سفر میرے دوست کی میت کی اس منزل کی جانب تھا۔
راقم سطور دو روز کے بعد راجستھان کے ایک سفر کے دوران اس ریلوے کراسنگ پر پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے رکا تو ایک چائے والے نے یہ واقعہ بتایا۔ خیال ہوا کہ مخبرصادق میرے آقا ﷺ نے کیسی سچی خبر دی ہے کہ ’’آدمی اپنی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے‘ اُس کا رزق‘ اس کی عمر اور اس کی موت کا بہانہ لکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس میں روح ڈالی جاتی ہے‘‘ خوشی خوشی نئی موٹرسائیکل خریدنے والا یہ دوست اپنے دوست کو اصرار کرکے موٹرسائیکل چلانے پر راضی کرکے خود پیچھے کی سیٹ پر سوار ہوکر یہ خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ یہ سفر وہ اپنی موت کی منزل کی طرف کررہا ہے۔ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ کی معرفت سے عاری ہم لوگ اس بات کو اتفاق سمجھتے ہیں کہ چیل کے منہ سے اتفاقاً سانپ گرا اور آگے والے کے بجائے پیچھے والے کی گردن پر گرگیا مگر حکیم و خبیر کے یہاں سب کچھ پہلے سے لکھا لکھایا طے کیا ہوا ہے۔ سانپ کے کاٹنے کے بہانے سے مرنے والا وہ شخص ہی نہیں ہم میں سے ہر ایک شخص کا ہر قدم اور گزرنے والا ہر لمحہ موت کی منزل کی جانب پیش رفت ہے ہم میں سے کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ اٹھائے گئے قدم کے رکھنے تک وہ زندہ رہے گااور اندر جانے والا سانس باہر آنے تک اور باہر جانے والا سانس اندر آنے تک اسے زندگی کی مہلت ملے گی۔
ایسی ناپائیدار اور پانی کے بلبلہ سے زیادہ عارضی زندگی کے ساتھ ہمارا موت کو بھول کر صرف اس فانی زندگی کی رنگ رلیوں میں مست ہوجانا کیسی حماقت اور نادانی ہے۔ واقعی موت کیسی مؤثر واعظ ہے۔ کاش! ہم یاد رکھیں کہ یہ زندگی موت کی منزل تک کا ایک امتحانی سفر ہے جس کا حساب دینے کیلئے ہم موت کی طرف جارہے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں